مکاشفہ باب ۱۸

1 ۱۔ پھر اِن چیزوں کے بعد میں نے ایک اورفرشتہ کو آسمان سے اُترتے دیکھا اُس کے پاس بڑا اختیار تھا۔ اور زمین اُس کے جلال سے روشن تھی۔ 2 ۲۔ وہ بڑی آواز سے پکار رہا تھا کہ بڑا شہر بابل گر پڑا، گر پڑا وہ شیاطین کا اور ہر طرح کی ناپاک رُوح اور ہر طرح کے مکروہ پرندہ کا اڈا بن گیا۔ 3 ۳۔ کیونکہ اُس کی حرام کاری کی غضب ناک مے پی کر سب قومیں گر گئی ہیں اور زمین کے بادشاہوں نے اُس کے ساتھ حرامکاری کی اور دُنیا کے تمام تاجر اِس عیش و عشرت کے باعث دولت مند ہو گئے۔ 4 ۴۔ پھرمیں نے آسمان سے ایک اور آواز سُنی کہ ’’ اے میری اُمت کے لوگو! اُن میں سے نکل آؤ تاکہ تُم اُن کے گناہوں میں شریک نہ ہوتاکہ تُم پر غضب نازل نہ ہو۔ 5 ۵۔ کیونکہ اُس کے گناہ آسمان تک پہنچ گئے اور اُس کے بُرے کام خدا کو یاد آئے ہیں۔ 6 ۶۔ جیسا اُس نے دوسروں کے ساتھ کیا اُس کے ساتھ کرو اور اُس کے کاموں کا دو چند بدلہ دو جس قدر اُس نے پیالہ بھرا تُم اُس کے لئے دُوگنا بھر دو۔ 7 ۷۔ اُس نے اپنے آپ کو جلال دیا اور عیش و عشرت کی زندگی گزاری اُسی قدر اُسے غم اور عذاب دو۔ وہ اپنے دل میں کہتی ہے میں ملکہ کی طرح بیٹھی ہوں، میں بیوہ نہیں ہوں میں پھر کبھی غم کو نہ دیکھوں۔ 8 ۸۔ اِس لئے اُس پر ایک ہی دن میں کئی آفتیں آئیں گی یعنی موت اور غم اور کال وہ آگ میں جلا کر خاک کر دی جائے گی کیونکہ اُس کا انصاف کرنے والا خدائے قادر ہے۔ 9 ۹۔ اور اُس کے ساتھ حرام کاری اور عیاشی کرنے والے زمین کے بادشاہ بے لگام ہو جائیں گے جب اُس کے جلنے کا دُھواں دیکھیں گے تو اُس کے لئے روئیں گے اور چھاتی پیٹیں گے۔ 10 ۱۰۔وہ اُس سے ڈرے ہوئے دُور کھڑے کہیں گے اے عظیم شہر بابل اے مضبوط شہر افسوس، افسوس تیری سزا کا وقت آپہنچا۔ 11 ۱۱۔ اور دنیا کے تمام سوداگر اُس کے لئے روئیں گے کیونکہ اُن کا مال کوئی نہیں خریدے گا۔ 12 ۱۲۔ اور وہ مال یہ ہے سونا، چاندی، قیمتی پتھر، موتی اور مہین کتانی اور ارغوانی اور ریشمی اور قرمزی کپڑے اور ہر طرح کی خُوشبُو دار لکڑیاں اور ہاتھی دانت کی طرح طرح کی چیزیں (برتن)اور نہایت بیش قیمت لکڑی اور پیتل اور لوہے اور سنگ مرمر کی طرح طرح کی چیزیں۔ 13 ۱۳۔ اور دار چینی اور مصالحہ اور عُود اور عطر اور لبان اور مے اور تیل اور گہیوں اور مویشی اور بھیڑیں اور گھوڑے اور گاڑیاں اور غلام اور آدمیوں کی جانیں۔ 14 ۱۴۔ وہ پھل جن کی تمہیں تلاش تھی وہ جاتے رہے، تمام زندگی کی عمدہ اور شاندار چیزیں مِٹ گئیں اور اب وہ ہر گز ہاتھ نہ آئیں گی۔ 15 ۱۵۔ ان چیزوں کے سوداگر جو اِسی کے ذریعے امیر بن گئے تھے۔اُسی کے عذاب کو دیکھتے ہوئے اُس سے دور کھڑے ہو جائیں گے، روئیں گے۔ 16 ۱۶۔ وہ کہیں گے افسوس، افسوس وہ بڑا شہر جوسوتی ارغوانی، قرمزی لباس پہنے اور موتی جواہرات سے آراستہ تھا۔ 17 ۱۷۔ گھڑی ہی بھرمیں اُن کی اتنی دولت برباد ہوگئی اور سب ناخدا اور جہاز کے سب مسافر اور ملاح اور جتنے سمندر کا کام کرتے ہیں۔ 18 ۱۸۔ وہ چلا اُٹھے اور اُنہوں نے اُٹھتا ہوا دُھواں دیکھا اور کہا ’’ بڑے شہر کی طرح اور کون سا شہر ہے؟۔ 19 ۱۹۔انہوں نے اپنے سروں پر خاک ڈالی ، روتے اور ماتم کرتے ہوئے یوں چلائے، افسوس، افسوس !اِس بڑے شہر جس کی دولت سے سمندر کے سب جہاز والے دولت مند ہوگئے تھے گھڑی ہی بھر میں اُجڑ گئے۔ 20 ۲۰۔ اے آسمان ،اےسب مقدسو، رسولو اور نبیو! خوش ہو کیونکہ خدا نے انصاف کر کے تُمہارا بدلہ لے لیا ۔ 21 ۲۱۔ پھر ایک زور آور فرشتہ نے چکی کے پاٹ کی طرح پتھر اُٹھایا اور یہ کہہ کر سمندر میں پھینک دیا بابل کا شہر بھی اِسی طرح زور سے گرایا جائے گا اور پھر اُس کا پتہ بھی نہ چلے گا۔ 22 ۲۲۔ اور بربط نوازوں اورموسیقاروں اور بانسلی بجانے والوں اور نرسنگا پُھونکنے والوں کی آواز پھر کبھی تجھ میں نہ سُنائی دے گی اور کسی پیشہ کاکاری گر تجھ میں کبھی پایا نہ جائے گا اور چکی کی آواز تجھ میں پھر کبھی نہ سنائی دے گی۔ 23 ۲۳۔ اور چراغ کی روشنی پھر تجھ میں نہ چمکے گی اور تجھ میں پھر کبھی دلہن اور دلہا کی آواز سنائی نہ دے گی کیونکہ تیرے سوداگر زمین کے امیر تھے اور تیری جادوگری سے سب قومیں گمراہ ہو گئیں۔ 24 ۲۴۔ اور زمین کے سب مقدسوں اور نبیوں اور تمام قتل کیے گئے لوگوں کا خون اُس میں پایا گیا۔