لوقا باب ۱۹

1 ۱۔ یسوع یریحو میں داخل ہو کر گز رہاتھا ۔ 2 ۲، دیکھو وہاں ایک شخص تھا جس کا نام زکائی تھا ۔وہ بہت امیر اور محصول لینے والوں کا سردار تھا۔ 3 ۳۔ وہ دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ یسوع کون ہے ،لیکن ہجوم کے باعث ایسا نہ کر سکا کیونکہ وہ قد کا چھوٹا تھا۔ 4 ۴۔ اس لیے وہ لوگوں کے آگے سے دوڑا اور اسے دیکھنے کے لیے گولر کے پیڑ پر چڑھ گیا ، کیونکہ یسوع اسی راستے سے گزرنے کو تھا۔ 5 ۵۔ جب یسوع اس جگہ پہنچا تو اس نے اوپر دیکھا اور کہا ’’ زکائی ، فوراً نیچے آ ، کیونکہ آج مجھے تیرے گھر رہنا ضروری ہے۔ 6 ۶۔ اس لیے وہ فوراً نیچے آیا اور خوشی سے اس کا استقبال کیا ۔ 7 ۷۔ جب سب نے یہ دیکھا تو گِلہ کیا اور کہا ’’ یہ اس شخص کے ہاں گیا ہے جو گنہگار ہے۔ 8 ۸۔ زکائی کھڑا ہوا اور خداوند سے کہا ’’دیکھ مالک میں اپنا آدھا مال غریبوں کودیتا ہوں ،اور اگر کسی بھی چیز میں کسی کو دھوکہ دیا ہے تو اس کو چار گنا ہ معاوضہ ادا کروں گا ۔ 9 ۹۔ یسوع نے اس سے کہا ، ’’آج اس گھر میں نجات آئی ہے کیونکہ یہ بھی تو ابراہام کا بیٹا ہے ۔ 10 ۱۰۔ کیونکہ ابنِ آدم کھوئے ہووں کو ڈھونڈنے او ر بچانے آیا ہے ۔ 11 ۱۱۔ جیسے ہی انہوں نے یہ باتیں سُنی تو اُس نے تمثیل کہی ، کیونکہ وہ یروشلیم کے قریب تھا ، انہوں نے سوچا کہ خدا کی بادشاہی ابھی ظاہر ہونے کو ہے ۔ 12 ۱۲۔ لہٰذا اُس نے کہا ’’ ایک امیر زادہ دور دراز ملک کو گیا کہ اپنی بادشاہی حاصل کرے اور واپس لوٹ آئے۔ 13 ۱۳۔ اس نے اپنے نوکروں میں سے دس کو بُلایا اور انہیں دس اشرفیاں دیں اور ان سے کہا ،کاروبار کو جاری رکھو جب تک میں واپس نہ آؤں۔لیکن اس کے شہری اس سے نفرت کرتے تھے ، انہوں نے اس کے پیچھے سفیر بھیجے کہ ہم اس شخص کو اپنے اوپر بادشاہی نہیں کرنے دیں گے۔ 14 15 ۱۵۔جب وہ بادشاہی حاصل کر کے واپس آیا تو ایسا ہوا ،اس نے حکم دیا کہ ان نوکروں کو بلایا جائے جن کو اس نے اشرفیاں دی تھیں، تاکہ معلوم کر سکے کہ کاروبار سے کیا کمایا۔ 16 ۱۶۔ پہلا نوکر آیا اور کہا ،مالک تیری ایک اشرفی سے دس اشرفیاں بنائیں۔ 17 ۱۷۔ امیر شخص نے اس سے کہا ، شاباش ،اچھے نوکر کیونکہ تُو تھوڑے میں ایماندار رہا ہے تجھے دس شہروں پر اختیار دیا جائے گا۔ 18 ۱۸۔دوسرا نوکر آیا اور کہا کہ مالک ،تیری اشرفی سے پانچ اور بنائیں ۔ 19 ۱۹۔ امیر شخص نے اس سے کہا ،تو پانچ شہروں پر حکمرانی کرے گا۔ 20 ۲۰۔ ایک اور آیا اور کہا کہ ، مالک یہ ہے تیری اشرفی ،جسے کپڑے میں میں نے سنبھال کر رکھا ہے ۔ 21 ۲۱۔ اس لیے کہ تیرا ڈر تھا ،کیونکہ تو سخت انسان ہے ۔ جو تو نے نہیں رکھا اُسے اُٹھا لیتا ہے اور وہاں سے کاٹتا ہے جہاں تو نے نہیں بویا ۔ 22 ۲۲۔ امیر شخص نے اس سے کہا ’’اے شریر نوکر میں تیرے ہی الفاظ سے تیرا انصاف کروں گا، تو جانتا تھا کہ میں سخت آدمی ہوں جہاں نہیں رکھتا وہاں سے ُاٹھا لیتا ہوں ،اور جہاں نہیں بوتا وہاں سے کاٹتا ہوں‘‘۔ 23 ۲۳۔ تو پھر تو نے میرے روپے کو ساہو کاروں کے پاس کیوں نہ رکھا تاکہ جب میں واپس آتا تو سود سمیت اس سے لے لیتا ؟۔ 24 ۲۴۔ امیر شخص نے اس سے کہا جو کھڑے تھے’’اس سے اشرفی لے لو اور اُس کو دو جس کے پاس دس اشرفیاں ہیں۔ 25 ۲۵۔ انہوں نے اُس سے کہا ، مالک ، اُس کے پاس دس اشرفیاں ہیں ۔ 26 ۲۶۔ میں تم سے کہتا ہوں ، جس کے پاس ہے اس کو او ر دیا جائے گا۔ ، اور جس کے پاس نہیں ہے اس سے وہ بھی جو اس کے پاس ہے لے لیا جائے گا۔ 27 ۲۷۔ لیکن میرے وہ دشمن ، جو نہیں چاہتے کہ میں ان پر حکومت کروں ، ان کو یہاں لاؤ اور میرے سامنے قتل کرو۔ 28 ۲۸۔جب وہ یہ باتیں کر چکا تو آگے آگے یروشلیم کو چل پڑا۔ 29 ۲۹۔ جب وہ زیتون کے پہاڑ کے نزدیک جو بیتِ فیگے اور بیت عنیا ہ کہلاتا ہے پہنچا تو ایسا ہوا کہ اُس نے اپنے شاگردوں کو بھیجا۔ 30 ۳۰۔ اور کہا ’’ساتھ والے گاؤں میں جاؤ اور جب تم داخل ہو گے تو تمہیں گدھی کا بچہ ملے گا جس پر کبھی سواری نہیں کی گئی۔ اس کو کھولنا اور میرے پاس لے آنا‘‘ ۔ 31 ۳۱۔ اگر کوئی تم سے پوچھے ، کہ اس کو کیوں کھول رہے ہو؟ تو کہنا ’’خداوند کو اس کی ضرورت ہے ‘‘۔ 32 ۳۲۔ جن کو بھیجا گیا تھا وہ گئے اور جیسا یسوع نے بتایا تھا گدھی کا بچہ پایا ۔ 33 ۳۳۔ جب وہ اس کو کھول ہی رہے تھے اور اس کے مالک نے ان سے کہا ’’تم اس کو کیوں کھول رہے ہو‘‘؟ 34 ۳۴۔ انہوں نے کہا ’’خدا وند کو اس ضرورت ہے‘‘۔ 35 ۳۵۔ وہ اسے یسوع کے پا س لے آئے ،اور انہوں نے اپنے کپڑے اس گدھی کے بچہ پر پھینکے اور یسوع کو اُس پر بیٹھایا۔ 36 ۳۶۔ اور جب وہ روانہ ہوا تو انہوں نے اپنے کپڑے راستے میں بچھائے۔ 37 ۳۷۔ جب وہ شہر کے نزدیک ، زیتون کے پہاڑ سے نیچے آرہے تھے تو شاگردوں کا ہجوم ان تمام عظیم کاموں کے باعث جو انہوں نے دیکھے تھے ، خدا کی حمد کرنے لگا۔ 38 ۳۸۔ اور کہا ، ’’مبارک ہے وہ بادشاہ جو خداوند کے نام سے آتا ہے ! آسمان پر صلح اور عالمِ بالا پر جلال!۔ 39 ۳۹۔ ہجوم میں موجود کچھ فریسیوں نے اس سے کہا ، ’’ اے استاد اپنے شاگردوں کو جھڑک ‘‘ ۔ 40 ۴۰۔ یسوع نے جواب دیا اور کہا۔ ’’اگر یہ خاموش ہو ں گے تو پھر پتھر چِلا اُٹھیں گے‘‘۔ 41 ۴۱۔ جب یسوع شہر کے پاس پہنچا تو اس پر چلا اٹھا‘‘ 42 ۴۲۔ اور کہا ’’تو سلامتی کی باتیں اس دن میں جانتا ! لیکن اب وہ تیری آنکھوں سے پوشیدہ ہیں‘‘۔ 43 ۴۳۔ کیونکہ تجھ پر وہ دن آئے گا جب تیرے دشمن تیرے گرد مورچہ بندی کریں گے اور تجھے گھیر لیں گے ۔ 44 ۴۴۔ وہ تجھے تیرے بچوں سمیت زمین دوز کریں گے۔ وہ ایک پتھر پر دوسرے پتھر کو نہ چھوڑیں گے۔ کیونکہ جب خدا تمہیں بچانے کی کوشش کر رہا تھا تو تم نےاسے نہ پہچانا۔ 45 ۴۵۔ یسوع ہیکل میں داخل ہوا اور ان کو باہر نکالنا شروع کیاجو بیچ رہے تھے۔ 46 ۴۶۔ اور کہا ، "لکھا ہے کہ میر اگھر دعا کا گھرہو گا ، لیکن تم نے اسے ڈاکوؤں کی پناہ دیا ہے۔" 47 ۴۷۔ اور یسوع ہر روز ہیکل میں تعلیم دیتا تھا، سردار کاہن ،صدوقی اور ان لوگوں کے راہنما اُس کو قتل کرناچاہتے تھے۔ 48 ۴۸۔ لیکن انہیں کوئی موثر راستہ نہ ملا ، کیونکہ سب لوگ اس کو توجہ سے سنتےتھے۔