لوقا باب ۲۰

1 ۱۔ ایک دن جب یسوع ہیکل میں لوگوں کو تعلیم دے رہا تھا ۔ وہاں سردار کاہن اور فقہیہ اوربزرگ آئے ۔ 2 ۲۔ وہ اس سے کہنے لگے ’’ہمیں بتا کہ تو یہ سب کام کس کے اختیار سے کرتا ہے ؟ یا کس نے یہ اختیار تجھے دیاہے ؟ 3 ۳۔ اس نے ان کو جواب میں کہا ، ’’میں بھی تم سے ایک سوال پوچھتا ہوں ، مجھے یوحنّا کے بپتسمہ کے متعلق بتا ؤ۔ 4 ۴۔ یوحنّا کا بپتسمہ ، ’’کیا آسمان کی طرف سے تھا یا آدمیوں کی طرف سے تھا ؟‘‘ 5 ۵۔ وہ آپس میں بات چیت(فیصلہ) کرنے لگے۔ اور کہنے لگے اگر ہم کہیں ’’آسمان کی طرف سے ، تو کہے گا میرا یقین کیوں نہیں کرتے؟۔ 6 ۶۔ لیکن اگر ہم کہتے ہیں ،آدمیوں کی طرف سے تو تمام لوگ ہمیں سنگسار کریں گے۔ اس لیے کہ وہ قائل تھے کہ یوحنّا نبی ہے ۔ 7 ۷۔ پس انہوں نے اس کو جواب دیا کہ وہ نہیں جانتے کہ کہاں سے آیاتھا ۔ 8 ۸۔ یسوع نے ان سے کہا میں بھی تمیں نہیں بتاؤں گا کہ میں کس کے اختیار سے یہ سب کچھ کرتا ہوں ۔ 9 ۹۔ اس نے لوگوں کو یہ تمثیل سنائی ، ’’ایک آدمی نے انگوروں کا باغ لگا یا ، کرائے پر باغبانوں کو دیا اورخود دوسرے ملک لمبے عرصہ کے لیے چلاگیا۔ 10 ۱۰۔ مقررہ وقت پر اس نے اپنے نوکر کو باغبانوں کے پاس بھیجا کہ وہ اس کو باغ کا پھل دیں ، لیکن باغبانوں نے اس کو مارا ااور خالی ہاتھ واپس بھیج دیا۔ 11 ۱۱۔ تب اس نے ایک اور نوکر کو بھیجا ،انہوں نے اس کو بھی مارا بے عزت کیااور خالی ہاتھ واپس بھیج دیا ۔ 12 ۱۲۔ تب اس نے تیسرےنوکر کو بھیجا اور انہوں نے اُس کو زخمی کیا اور باہر پھینک دیا۔ 13 ۱۳۔ پس باغ کے مالک نے کہا ، اب میں کیا کروں ؟ میں اپنے پیارے بیٹے کو بھیجوں گا ، شاید وہ اس کی عزت کریں گے۔ 14 ۱۴۔ لیکن جب باغ کے ٹھیکیداروں نے اس کو دیکھا تو انہوں نے آپس میں بات چیت کی اور کہا ، یہ تو وارث ہے ،آؤ اس کو مار (قتل)دیں ۔اس طرح یہ ساری میراث ہماری ہو گی۔ 15 ۱۵۔ انہوں نے اس کو پکڑ کر باغ سے باہر پھینک دیا اور اس کو جان سے مار دیا، توانگور کے باغ کامالک ان کےساتھ کیا کرے گا؟ 16 ۱۶۔ وہ آئے گا اورانگور کے باغ کے ٹھیکیداروں کو برباد کرے گااور باغ دوسروں کو دے گا۔ جب انہوں نے سنا تو کہنے لگے کہ یہ کفر بکتا ہے ۔ 17 ۱۷۔ لیکن یسوع نے ان کی طرف دیکھا اور کہا ،اس صحیفے کا کیا مطلب ہے ؟۔ ’’جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا۔ 18 ۱۸۔ جو بھی اس پتھر پر گرے گا ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ لیکن جب وہ کسی پر گرے گا تو اس کو برباد کر دے گا ۔ 19 ۱۹۔ پس فقہیوں اور سردار کاہنوں نے اسی گھڑی اس پر ہاتھ ڈالنے کا منصوبہ بنایا کیونکہ ان کومعلوم تھا کہ اس نے وہ تمثیل ان کے خلاف کہی ہے ، لیکن وہ لوگوں سے ڈرتے تھے۔ 20 ۲۰۔ بڑے غور سے اس کی طرف دیکھتےہوئے ، انہوں نے کچھ آدمیوں کو بھیجا جو اپنے آپ پاک وراستباز ہو نے کا بھیس بدلے ہوئے تھے تاکہ وہ اس کی باتوں میں غلطی نکالیں اور اس کو حکومت اور با اختیار گورنر کے حوالہ کریں ۔ 21 ۲۱۔ انہوں نے اس سے پوچھا استاد ہم جانتے ہیں کہ تو درست کہتا اور سیکھاتا ہے اور کسی اور کی تعلیم سے متاثر نہیں بلکہ خدا کی سچائی کی تعلیم دیتاہے ۔ 22 ۲۲۔ کیا ہمیں قیصر کو جزیہ ادا کرنا قانون کےمطابق ہے یا نہیں؟ 23 ۲۳۔ لیکن یسوع نے ان کی مکاری کو سمجھ کر ان کو جواب دیا۔ 24 ۲۴۔ مجھے ایک دینار دکھاؤ! اس پر کس کی تصویر اور کس کی مہر ہے ؟ انہوں نے کہا ’’قیصر کی ‘‘ 25 ۲۵۔ اس نے ان سے کہا جو چیز قیصر کی ہے قیصر کو دو اور جو خدا کا ہے خدا کو دو۔ 26 ۲۶جو کچھ اس نے لوگوں کےسامنےکہا ، فقہیہ اور سردار کاہن اس پر تنقید کرنے کے قابل نہ تھے۔ کیونکہ اُس کے جواب سے حیران تھے۔ 27 ۲۷۔کچھ صدوقی اس کے پاس آئے جوکہتے ہیں کہ قیامت نہیں ہے۔ 28 ۲۸۔ انہوں نے اس سے یہ کہہ کر پوچھا کہ ’’استاد موسیٰ کی شریعت کے مطابق اگر کسی آدمی کا بھائی مر جائے اور اس کی بیوی ہو اور کوئی اولاد نہ ہو ،تو وہ اسے اپنی بیوی بنائے اور اپنے بھائی کے لیے اولاد پیدا کرے۔ 29 ۲۹۔ سات بھائی تھے اور پہلے نے شادی کی اور بے اولاد مر گیا ۔ 30 ۳۰۔ اور دوسرا بھی اسی طرح مر گیا ۔ 31 ۳۱ ۔ تب تیسرے نے اس سے بیاہ کیا اور اسی طرح ساتو ں بے اولاد مر گئے۔ 32 ۳۲۔ اس کے بعد وہ عورت بھی مر گئی ۔ 33 ۳۳۔ تو قیامت کے دن وہ کس کی بیوی کہلائے گی؟ کیونکہ اُن ساتوں نے اس سےبیاہ کیا۔ 34 ۳۴۔ یسوع نے ان سے کہا دنیا کے لوگ تو شادی بیاہ کرتے ہیں ۔ 35 ۳۵۔ لیکن وہ لوگ جو عدالت کے دن کے لیے بلائے گئے ۔قیامت کے دن مردوں میں سے جی اٹھیں گے اوروہاں نہ کوئی شادی نہ بیاہ ہوگا۔ 36 ۳۶۔ نہ ہی وہاں موت ہو گی وہ فرشتوں کی طرح ہوں گے اور خدا کے بیٹے اور قیامت کے فرزند ہوں گے۔ 37 ۳۷۔ لیکن مردے جی اٹھتے ہیں یہاں تک کہ موسیٰ کی جلتی جھاڑی میں خدا نظر آیا ، جہاں وہ خداوند خدا کو ابرہام کا خدا اضحاق کا خدا یعقوب کا خدا پکارتاہے۔ 38 ۳۸۔ اب وہ مردوں کا خدا نہیں بلکہ زندوں کا خدا ہے ،کیونکہ اس میں سب جیتے ہیں ۔ 39 ۳۹۔ کچھ فقیہوں نے جواب دیا ’’استاد آپ نے خوب کہا ۔‘‘ 40 ۴۰۔ اس لیے ان کو جرات نہ ہوئی کہ وہ اس سے اور سوالات پوچھیں۔ 41 ۴۱۔ یسوع نے ان سے کہا ’’وہ مسیح کو ابنِ داؤد کیونکر کہتے ہیں ؟" 42 ۴۲۔ اس لیے داؤد زبوروں میں خودکہتا ہے کہ ’’خداوندنے میرے خداوند سے کہا میرے داہنے ہاتھ بیٹھ، 43 ۴۳۔ جب تک میں تیرے دشمنوں کو تیرے پاؤں کی چوکی نہ بنا دوں۔ 44 ۴۴۔ داؤد اس لیے مسیح کو’’ خداوند‘‘ کہتاہے ۔پس وہ کیسے ابنِ داؤد ہے؟" 45 ۴۵۔ تمام لوگوں کے سُنائی دینے میں اُس نے اپنے شاگردوں سے مخاطب ہو کر کہا ، 46 ۴۶۔ "فقیہوں سے خبردار رہو ، وہ لمبے چوغوں میں چلنے کی خواہش کرتے ہیں، اور بازاروں میں خاص سلام پسند کرتے ہیں اور عبادت خانوں میں اونچی جگہ بیٹھنا پسند کرتے ہیں ، اور دعوتوں میں اعلی درجہ چاہتے ہیں۔ 47 ۴۷۔ وہ بیواؤں کے گھروں کو لوٹ کھاتے ہیں اور دکھاوے کے لیے لمبی دعائیں کرتے ہیں ۔ یہ لوگ زیادہ سزا پائیں گے۔"