باب

1 ۔ یرمیاہ مُقیدّ جب سفطیاہ بِن متّاؔن اَور جدلیاہ بِن فشُؔحور اَور یُوکؔل بِن سلمیاہ اَور فشُؔحور بِن ملکیاہ نے وہ باتیں سُنیں جو یرمیاہ نے تمام لوگوں سے مُخاطب ہو کر کہیں۔ 2 ۔ ( یعنی کہ خُداوند یُوں فرماتا ہَےکہ جو کوئی اس شہر میں رہے گا وہ تلوار اَور کال اَور وَبا سے مَرے گا۔اَور جو کسدیوں کے پاس چلا جائے گا وہ جیتا رہے گا۔ اُس کی جان اُس کے لئے غنیمت ہوگی اَور وہ جیتا رہے گا۔ 3 ۔ خُداوند یوں فرماتا ہے کہ یہ شہر ضُرور شاہ بابؔل کے لشکر کے حوالہ کِیا جائے گا۔ اَور وہ اُسے لے لے گا۔ 4 ۔ تب سرداروں نے بادشاہ سے کہا۔ کہ یہ آدمی قتل کیا جائے کیونکہ وہ اُن جنگی مَردوں کے ہاتھوں کو جو اس شہر میں باقی ہَیں بلکہ تمام لوگوں کے ہاتھوں کو اُن سے ایسی باتیں کہہ کر سست کر دیتا ہَے ۔اِس لئے کہ وہ ان لوگوں کی سلامتی کا نہیں بلکہ بَدی کا خواہاں ہَے۔ 5 ۔ تب صدقیاہ بادشاہ نے کہا ۔دیکھ۔ وہ تُمہارے ہاتھ میں ہَے کیونکہ بادشاہ تُمہاری رائے کے خلاف کُچھ کر نہیں سکتا۔ 6 ۔ تب اُنہوں نے یرمیاہ کو پکڑا ۔اَور قید خانے کے صحن کے اَندر ملکیاہ شہزادہ کے گہرے حوض میں ڈال دِیا۔ اَور اُنہوں نے یرمیاہ کو رسُوں سےاُس میں لٹکا دِیا۔ اَور حوض میں پانی نہ تھا۔ پر کیچڑ تھا۔ سو یرمیاہ کیچڑ میں دھنس گیا۔ 7 ۔ اَور عبد ملکؔ کُوشی ایک خواجہ سرائے نے جو بادشاہ کے گھر میں تھا سُنا کہ اُنہوں نے یرمیاہ کو حوض میں ڈالا ۔ ( اَور بادشاہ بنیمین کے پھاٹک پر بیٹھا ہُؤا تھا)۔ 8 ۔ تو عبد ملؔک بادشاہ کے گھر سے نِکلا۔ اَور بادشاہ سے بات کر کے کہا۔ 9 ۔اَے میرے آقا بادشاہ ! اِن آدمیوں نے جو کُچھ یرمیاہ نبی سے کِیا ہَے ۔وہ بُرا کِیا ہَے جِسے حوض میں ڈال دِیا ہَے۔ وہ وہاں بھُوک سے مَر جائے گا ۔کیونکہ شہر میں روٹی نہیں ہَے۔ 10 ۔ تو بادشاہ نے عبد ملؔک کُوشی کو حُکم دے کر کہا ۔کہ یہاں سے تین آدمی اپنے ساتھ لے ۔اَور یرمیاہ کو حوض میں سے نِکال پیشتر اِس سے کہ وہ مَر جائے۔ 11 ۔ تب عبد ملک نے اپنے ساتھ آدمی لیے اَور بادشاہ کے گھر میں خزانے کے نیچے گیا ۔اَور وہاں سے پُرانے کپڑے اَور سڑے ہوئے چِیتھڑے لئے۔ اَور اُنہیں رسّوں سے یرمیاہ کے پاس حوض میں لٹکایا۔ 12 ۔ اَور عبد ملؔک کُوشی نے یرمیاہ سے کہا ۔ کہ اِن پرانے کپڑوں اَور سڑے ہُوئے چِیتھڑوں کو اپنی بغلوں کے نیچے رسّوں کے اُوپر رکھّ ۔تو یرمیاہ نے ایسا ہی کِیا۔ 13 ۔ اَور اُنہوں نے یرمیاہ کو رسّوں سے کھینچا اَور حوض سے باہر نِکالا۔ اَور یرمیاہ قید خانے کےصحن میں رہا۔ 14 ۔پھِر صدقیاہ بادشاہ نے آدمی بھیجے اَور یرمیاہ نبی کو خُداوند کے تیسرے مَدخِل میں اپنے پاس منگوایا۔اَور بادشاہ نے یرمیاہ سے کہا۔ مَیں تُجھ سے ایک بات پُوچھتا ہُوں۔لہٰذا تُو مُجھ سے کُچھ نہ چھُپا۔ 15 ۔یرمیاہ نے صدقیاہ سے کہا اگر مَیں تُجھے بتادُوں ۔تو کیا تُو ضُرور مُجھے قتل نہ کرے گا؟ اَور اگر مَیں تُجھے صلاح دُوں۔تو تُومیری نہ سُنے گا۔ 16 ۔ تب صدقیاہ بادشاہ نے یرمیاہ کے سامنے خُفیتاََ قَسم کھا کر کہا۔ زِندہ خُداوند کی قَسم جس نے ہماری یہ جان بنائی۔ کہ مَیں تُجھے قتل نہ کرُ وں گا۔ اَور نہ تُجھےاُن آدمیوں کے حوالے کرُوں گا جو تیری جان کے خواہاں ہَیں۔ 17 ۔تب یرمیاہ نے صدقیاہ سے کہا۔ خُداوند لشکروں کا خُدا اِسرائیؔل کاخُدا یُوں فرماتا ہَے اگر تُو شاہ بابؔل کے سرداروں کے پاس نِکل کر جائے ۔تو تیری جان زِندہ رہے گی ۔اَور یہ شہر آگ سے نہ جَلایا جائے گا۔ اَور تُو اپنے گھرانے سمیت سلامت رہے گا۔ 18 ۔ لیکن اگر تُو شاہ بابؔل کے سرداروں کے پاس نِکل کر نہ جائے تو یہ شہر کسدیوں کے ہاتھ میں دے دِیا جائے گا۔ اَور وہ اِسے آگ سے جَلا دیں گے اَور تُو اُن کے ہاتھ سے نہ چھُوٹے گا۔ 19 ۔صدقیاہ بادشاہ نے یرمیاہ سے کہا ۔کہ مَیں اُن یہُودیوں سے جو بھاگ کر کسدیوں کے پاس گئے ہُوئے ہَیں ڈرتا ہُوں۔ ایسا نہ ہو کہ مَیں اُن کے ہاتھ میں دِیا جاؤں ۔تو وہ مُجھ سے ٹھٹھّا کریں گے۔ 20 ۔ یرمیاہ نے کہا۔ کہ تُو اُن کے ہاتھ میں نہ دِیا جائے گا۔ پس تُو خُداوند کی بات سُن جو مَیں تُجھ سے کہتا ہُوں۔ تاکہ تیرا بھلا ہو اَور تیری جان جِیتی رہے۔ 21 ۔ پر اگر تُو اِنکار کرے تو یہ وہ کلام ہَے جو خُداوند نے مُجھے دِکھایا۔ 22 ۔ دیکھ۔ جِتنی عورتیں شاہ یہُوداہ کے گھر میں رہ گئی ہَیں وہ شا بابؔل کے سرداروں کے پاس پہُنچائی جائیں گی اَور کہیں کہ " تیرے خیر خواہوں نے تُجھے دھوکا دِیا اَور تُجھ پر غالِب آئے۔ پس تیرے پاؤں کیچڑ میں پھنس گئے۔ اَور وہ تیرے پاس سے چلے گئے" ۔ 23 ۔ اَور وہ تیری تمام بیویوں اَور تیرے بیٹوں کو کسدیوں کے پاس نِکال لے جائیں گے۔اَور تُو بھی اُن کے ہاتھ سے بچا نہ رہے گا بلکہ شاہِ بابؔل کے ہاتھ میں گِرفتار کِیا جائے گا۔اَور یہ شہر آگے سے جَلا یا جائے گا۔ 24 ۔ تب صدقیاہ نے یرمیاہ سے کہا۔ کہ یہ باتیں کوئی نہ جانے تاکہ تو نہ مَرے۔ 25 ۔ اَور اگر سردار سُنیں کہ مَیں نے تُجھ سے باتیں کیں اَور تیرے پاس آکر کہیں۔ ہمیں بتا کہ تُو نے بادشاہ سے کیا کہااَور کہ بادشاہ نے تُجھ سے کیا کہا۔ اَور اُسے ہم سے نہ چھُپا ۔تو ہم تُجھے قتل نہ کریں گے۔ 26 ۔ تو اُن سے تُو کہنا۔ کہ مَیں نے بادشاہ کے حضُور مِنّت کی کہ مُجھے یونتن کے گھر میں واپس نہ بھیجے کہ مَیں وہاں مَر جاؤُں گا۔ 27 ۔ پس۔ جب سب سردار یرمیاہ کے پاس آئے اَور اُس سے پُو چھا ۔تو اس نے وہ سب باتیں جِن کا بادشاہ نے اُسے حُکم دِیا تھا اُن سے کہیں۔تو وہ اُسے چھوڑ گئے ۔ کیونکہ اُس اَمر کی بابت کوئی بات نہ سُنی۔ 28 ۔ اَور یرمیاہ قید خانے کے صحن میں رہا۔ جس دِن تک کہ یُروشلیِؔم نہ لے لِیا گیا۔