باب

1 اَیُّوبؔ کی آخری تقریر ۔ گزشتہ خوشحالی اَیُّوبؔ نے اپنی بات دوبارہ شرُوع کر کے کہا کہ۔ 2 کاش! مَیں گُزشتہ مہینوں کی طرح ہو جاؤں۔ اَور اُن دِنوں کی مانند جِن میں خُدا میر امُحافِظ تھا۔ 3 جب اُس کا چراغ میرے سر کے اُوپر روشن رہتا تھا۔ اَور مَیں اُس کی روشنی کے وسیلہ اندھیرے میں چلتا تھا۔ 4 جیسا کہ مَیں اپنے عرُوج کے وقت میں ہوتا تھا۔ جب میرے خَیمے میں خُدا کے ساتھ میری قُربت تھی۔ 5 اَور قادرِمُطلِق میرے ساتھ ہوتا تھا اَور میرے بچے میرے گِرد کھڑے ہوتے تھے۔ 6 مَیں اپنے پاؤں مکھّن سے دھوتا تھا۔ اَور چٹان میرے لئے تیل کی ندیاں بہاتی تھی۔ 7 جب مَیں شہر کے دروازے کو جاتا اَور چوک میں اپنی کُرسی رکھتا تھا۔ 8 جوان آدمی مُجھے دیکھ کر چُھپ جاتے اَور بُوڑھے اُٹھ کر کھڑے ہوتے تھے۔ 9 رئیس بولنے سے باز رہتے اَور اپنا ہاتھ اپنے مُنہ پر رکھتے تھے۔ 10 حاکِموں کا بولنا تھم جاتا تھا۔ اَور اُن کی زُبانیں اُن کے تالوُ سے لگ جاتی تھیں۔ 11 جب کان سُن لیتا تو مُجھے مُبارک کہتا تھا۔ اَور جب آنکھ دیکھتی تو میری گواہی دیتی تھی۔ 12 کیونکہ مَیں فریاد کرنے والے مِسکین کو چھُڑاتا تھا اَور یِتیم کو بھی جس کا کوئی مدد گار نہیں ہوتا تھا۔ 13 ہلاک ہونے والا مُجھے دُعا دیتا تھا۔ اَور بیوہ کے دِل کو مَیں ایسا خوش کرتا تھا کہ وہ گانے لگتی تھی۔ 14 مَیں راستبازی کو لباس کی طرح پہنتا تھااَوراِنصاف گویا میرا چوغہ اور پگڑی تھی۔ 15 مَیں اَندھوں کے لئے آنکھیں اَور لنگڑوں کے لئے پاؤں ہوتا تھا۔ 16 مَیں مِسکینوں کا باپ ہوتا تھا۔ اَور جِسے مَیں نہ جانتا تھا اُس کے دعویٰ کی بھی تحقِیق کرتا تھا۔ 17 مَیں ظالِم کے جبڑے توڑتا تھا۔ اَور اُس کے دانتوں میں سے اُس کے شِکار کو کھینچ نِکالتا تھا۔ 18 مَیں کہتا تھا کہ مَیں اپنے گھونسلے ہی میں ہلاک ہو جاؤں گا۔ اَور ریت کی طرح اپنے ایاّم کو بڑھاؤں گا۔ 19 میری جڑ پانی کے پاس پھیلی ہُوئی ہو گی۔ اَور اوس میری شاخوں پر رات کاٹے گی۔ 20 میری عظمت مُجھ میں تُرو تازہ رہے گی۔ اَور میری کمان میرے ہاتھ میں مضبُوط رہے گی۔ 21 وہ مُنتظر ہو کر میری سُنتے تھے۔ اَور خاموش ہو کر میری صلاح سُنتے تھے۔ 22 وہ میرے بولنے کے بعد کُچھ نہ بولتے تھے۔ اَور میری باتیں اُن پر ٹپکتی جاتی تھیں۔ 23 وہ میرا ایسے اِنتظار کرتے تھے جیسے بارش کااَور میرے الفاظ کو بہار کی بارش کی طرح پی لیتے تھے۔ 24 جب مَیں اُن پر مُسکراتا تھا تووہ یقین نہیں کرتے تھے۔ وہ میرے چہرے کی رونق اُن کے لئے قیمتی تھی۔ 25 مَیں اُن کے پاس جا کر سردار کی طرح بیٹھتا ہوتا تھا۔ اَور ایسے رہتا تھا جیسے فوج میں بادشاہ ۔ یا اُس شخص کی طرح جو غمگینوں کو تسلّی دیتا ہے۔