زبُور دُینوی دولت کی بطالت

1 ۔ ( میر مغّنی کے لئے۔ از بنی قورؔح ۔ زبور) 2 ۔ اَے تمام قومو! یہ سُنو۔ اَے جہان کے سب باشُندو ! کان لگاؤ۔ 3 ۔ کیا ادنیٰ کیا اعلٰی۔ کیا اَمیر کیا فقیر۔ 4 ۔ میرے مُنہ کی باتیں حِکمَت کی ہوں گی۔ میرے باطِن کا تفکّر احتیاط کا ہوگا۔ 5 ۔ مَیں تمِثیل کی طرف کان لگاؤں گا۔ مَیں اپنا مُعّمار بربط کے ساتھ بیان کرُوں گا۔ 6 ۔ مَیں بُرے دِنوں میں کیوں ڈرُوں۔ جب تَعاقُب کرنے والوں کی شرارت مُجھے گھیرے ہو۔ 7 ۔ وہ جو اپنی دولت پر بھروسا رکھتے۔ اَور اپنے مال کی کثرت پر فخر کرتے ہَیں۔ 8 ۔ تاہم کوئی اپنا فِدیہ ہر گز نہیں دے سکتا۔ اَور نہ خُدا کو اپنا معاوضہ ہی ادا کر سکتا ہَے۔ 9 ۔ کیونکہ اُس کی جان کا مُعاوضہ گِراں بہا ہَے۔ اَور وہ کبھی بھی کافی نہ ہوگا۔ 10 ۔ تاکہ وہ اَبد تک جیتا رہے۔ اَو ر فنا کو نہ دیکھے۔ 11 ۔ کیونکہ وہ دیکھے گا کہ عالِم مَر جاتے ہَیں۔ اَور ویسےہی جاہل اَور کُند ذہن ہلاک ہو جاتے ہَیں۔ اَور وہ اپنی دولت اَوروں کے لئے چھوڑ جاتے ہَیں۔ 12 ۔ زمانے کے اَنجام تک قبریں ہی اُن کے گھر ہَیں۔ بلکہ پُشت در پُشت اُن کے مَساکِن ہَیں۔ ہر چند کہ وہ مُلکوں کو اپنے ہی نام سے نامزد کر چُکے ہَیں۔ 13 ۔ پر اِنسان اپنی حشمت میں قائم نہ رہے گا۔ وہ فانی حیوان کی طرح ہَے۔ 14 ۔ اُن کی طریق یہی ہَے جِن کا بھروسا حماقت ہَے۔ اَور اُن کا بھی یہی اَنجام ہَے جو اپنے بخت سے خُوش ہَیں۔ (سِلاہ) 15 ۔ وہ بھیڑ بکریوں کی مانند عالمِ اَسفل میں اُتارے جاتے ہَیں۔ مَوت اُن کی پا سبان ہَے ۔اَور راستکار اُن پر مُسلِّط ہَیں۔ اُن کا حُسن جلدی ہی زائل ہو جاتا ہَے۔ پاتال اُن کا ٹھکانا ہَے۔ 16 ۔ لیکن خُدا میری جان کو پاتال کی گِر فت سے چھُڑالے گا۔ جب کہ وہ مُجھے اپنے پاس قبُول کر لے گا۔ ( سِلاہ) 17 ۔ جب کوئی مالدار ہو جائے۔ جب اُس کے گھر کی شوکت بڑھے۔ تو تُو خوف نہ کر۔ 18 ۔کیونکہ وہ مَر کر کُچھ ساتھ نہ لے جائے گا۔ نہ اُس کی شوکت اُس کے ساتھ اُترے گی۔ 19 ۔ اگر چہ وہ جیتے جی اپنی جان کو مُبارَک کہتا رہا ہو۔ کہ " اس لئے تیری تعریف کی جائے گی کہ تُو نے اپنا بھلا کِیا ہَے" 20 ۔ تو بھی وہ اپنے باپ دادا کے گروہ میں جاملے گا جو کبھی روشنی نہ دیکھیں گے۔ 21۔ پر اِنسان جو عزت سے رہتا ہَے پر غور نہیں کرتا وہ فانی حیوان کی طرح ہے۔