رومیوں باب ۹‎

1 ۱۔ میں مسیح میں سچ کہتا ہوں۔ میں جھوٹ نہیں بولتا اور میراضمیر میرے ساتھ روح القدس میں گواہی دیتا ہے، 2 ۲۔ کہ ، میرے لئے میرے دل میں ایک بڑا دکھ اور کبھی نہ مٹنے والا درد ہے۔ 3 ۳۔ کیونکہ میری چاہت تو یہاں تک ہے کہ مجھ پر لعنت ہو اور اپنے بھائیوں کی خاطر جو جسم کے اعتبار سے میری نسل سے ہیں ، میں مسیح سے الگ کر دیا جاؤں۔ 4 ۴۔ وہ اسرائیلی ہیں۔ لے پالک ہونے کا حق ، جلال، عہود ،شریعت کی نعمت،خدا کی پرستش اور وعدے رکھتے ہیں۔ 5 ۵۔ بزرگ بھی اُن کے ہیں جن میں سے مسیح جسم کے اعتبار سے آیا، وہ جو سب پر خدائے قادر ہے۔اُس کی پرستش سدا ہو۔ آمین۔ 6 ۶۔لیکن ایسا نہیں ہے کہ خدا کے وعدے ناکام ہو گئے۔کیونکہ ہر کوئی جو اسرائیل میں ہے حقیقی اسرائیلی نہیں۔ 7 ۷۔ نہ ہی سب جو ابرہام کی نسل سے ہیں حقیقت میں اُس کے فرزند ہیں۔لیکن ، "یہ اضحاق سے کے ذریعے ہے کہ تیرے وارث بلائے جائیں گے۔" 8 ۸۔ یعنی جو جسم کے فرزند ہیں وہ خدا کے فرزند نہیں۔ لیکن وہ بچے جو وعدے کے ہیں فرزند سمجھے جاتے ہیں۔ 9 ۹۔ پس وعدہ کا کلام یہ ہے:’’میں اِسی وقت اگلے سال آؤں گا اور سارہ کےبیٹا ہوگا۔‘‘ 10 ۱۰۔ نہ صرف یہ بلکہ ربقہ سے بھی جو ایک ہی مرد ہمارے باپ اضحاق کے ذریعہ حاملہ ہوئی ۔ 11 ۱۱۔ پس ابھی بچے پیدا بھی نہ ہوئے تھے اور نہ ہی اُنہوں نے کوئی بدی یانیکی کی تھی، بلکہ اِس واسطے کہ خدا کے مقصد چناؤ کے مطابق قائم رہے نہ کہ کاموں کے باعث بلکہ اُس کے وسیلے جو بلاتا ہے۔ 12 ۱۲۔ اُ سے یہ کہا گیا،" بڑا چھوٹے کی خدمت کرے گا۔‘‘ 13 ۱۳۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا لکھا ہے:’’ یعقوب سے میں نے محبت کی مگرعیسو سے میں نے نفرت کی۔‘‘ 14 ۱۴۔ تو پھر ہم کیا کہیں؟کیا خدا کے ہاں ناراستی ہے؟ ہر گز ایسا نہ ہو۔ 15 ۱۵۔ کیونکہ وہ موسیٰ سے کہتا ہے،’’ مجھے جس پر رحم کرنا پسند ہے میں رحم کروں گا ،اور جس پر ترس کھانا پسند ہے ترس کھاؤں گا۔" 16 ۱۶۔تو پھر یہ نہ اُس کی وجہ سے ہے جو مرضی کرتا ہے نہ ہی دوڑ دھوپ کرنے والےکی بدولت بلکہ خدا کے وسیلہ سے جو رحم کرتا ہے۔ 17 ۱۷۔ کیونکہ نوشتہ فرعون سے کہتا ہے،’’اِس خاص مقصد کے واسطے میں نے تجھے کھڑا کیا تاکہ میں اپنی قدرت کو تجھ میں ظاہرکرسکوں اور میرے نام کی پوری دنیا میں منادی ہو۔‘‘ 18 ۱۸۔ توپھر، خدا جس پر چاہتا ہے رحم کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ڈھیٹھ بنا دیتا ہے۔ 19 ۱۹۔ تو پھر تم مجھ سے کہو گے،’’وہ کیوں اب بھی عیب ڈھونڈتا ہے؟کیونکہ کس نے اُس کی مرضی کی مخالفت کی ؟" 20 ۲۰۔ اِس کے بر عکس اَے انسان! تو کون ہے جو خدا کوجواب دیتا ہے؟ کیا جسے ڈھالا گیا ہے وہ اپنے ڈھالنے والے سے کہتا ہے،’’ تو نے مجھے ایسا کیوں بنایا ہے؟‘‘ 21 ۲۱۔ کیا کمہار کو مٹی پریہ حق نہیں کہ وہ ایک ہی مٹی کے ڈھیلے سے خاص استعمال کا برتن اور دوسرا روزمرہ استعمال کا برتن بنائے؟ 22 ۲۲۔کیا ہواگر(تعّجُب ہے) خدا جو کہ رضامند ہے،کہ اپنے غضب اور قدرت کو ظاہر کرنے کے لیے ، اُن غضب کے برتنوں کے ساتھ جو تباہ ہونے کے لئے بنائے گئے تھے زیادہ تحمل سے پیش آیا؟ 23 ۲۳۔ کیا ہو اگر (تعّجُب ہے کہ) ، اُس نے ایسا اِس لئے کیا تاکہ وہ اُس جلال کی کثرت کو رحم کے برتنوں پر ظاہر کرے، جنہیں اُس نے پہلے سے اپنے جلال کے لئے تیار کیا تھا؟ 24 ۲۴۔ کیا ہو اگر (تعّجُب ہے کہ) ، اُس نے ایسا ہمارے لئے بھی کیا جنہیں اُس نے بلایا بھی، نہ صرف یہودیوں میں سے بلکہ غیرقوموں میں سے بھی؟ 25 ۲۵۔ جیسا کہ ہوسیع میں بھی وہ فرماتا ہے:’’ میں اُن لوگوں کو اپنی اُمّت کہوں گا جو میرے لوگ نہ تھے، اور اُسے محبوبہ کہوں گا جو محبوبہ نہ تھی۔ 26 ۲۶۔ اور ایسا ہو گا کہ جہاں اُن سے کہا گیا تھا، ’تم میرے لوگ نہیں ہو،‘ وہاں وہ ’زندہ خدا کے بیٹے کہلائیں گے۔‘‘ 27 ۲۷۔ یسعیاہ اسرائیل کے متعلق فکر مند ہوتے ہوئے چلاتا ہے،’’اگرچہ بنی اسرائیل شمار میں سمندر کی ریت کے مانند تھے، توبھی اُن میں سے مٹھی بھر(تھوڑے )ہی نجات پائیں گے۔ 28 ۲۸۔ کیونکہ خداوند جلد اور مکمل طور پر اپنے کلام کو زمین پر عمل میں لائے گا۔ “ 29 ۲۹ ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے یسعیاہ پہلے کہہ چکا ،’’ اگر لشکروں کا خداوند ہمارے پیچھے ایک نسل باقی نہ چھوڑتا تو ہم صدوم کی مانند اورعمورہ کے برابر ہو جاتے۔ “ 30 ۳۰۔ پھر ہم کیا کہیں؟ غیر قومیں جو راست بازی تلاش نہیں کر رہی تھیں اُنہوں نے راست بازی حاصل کر لی وہ راست بازی جو ایمان سے حاصل ہوتی ہے۔ 31 ۳۱۔ لیکن اسرائیل جس نے شریعت سے راست بازی کی تلاش کی، وہ اُس تک نہ پہنچ سکے۔ 32 ۳۲۔ ایسا کیوں نہ ہو؟ کیونکہ اُنہوں نے ایمان سے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی ، بلکہ اعمال سے کی۔اُنہوں نے ٹھوکر دینے والے پتھر سے ٹھوکر کھائی، 33 ۳۳۔ جیسا کہ لکھا گیا ہے، " دیکھ میں صیون میں ٹھیس لگانے کا پتھر اور ٹھوکر کھانے کی چٹان رکھتا ہوں ۔جو کوئی اُس پر ایمان رکھتا ہے شرمندہ نہ ہو گا۔"