رومیوں باب ۷‎

1 ۱۔ اَے بھائیو! کیا تم نہیں جانتے ہو؟( میں اُن کو مخاطب کر رہا ہوں جو شریعت کو جانتے ہیں) کہ انسان جب تک زندہ ہے اُس وقت تک ہی شریعت کے اختیار میں ہے؟۔ 2 ۲۔ اِس لئے بیاہتا عورت بھی جب تک اُس کا شوہر زندہ رہتا ہے تب تک شریعت کے مطابق اُس کے تابع ہے، لیکن اگر شوہر مر جاتاہےتو وہ شادی کی شریعت سے آزاد ہے۔ 3 ۳۔ لیکن اگر اپنے شوہر کے زندہ ہوتے ہوئے کسی دوسرے مرد کے ساتھ رہتی ہے تو وہ زانیہ کہلائے گی۔ لیکن اگر شوہر مر جائے تو وہ اُس شریعت سے آزاد ہے اور اگر کسی دوسرے مرد کے ساتھ رہے تو زانیہ نہ کہلائے گی۔ 4 ۴۔ لہذا، اے میرے بھائیو! تم بھی مسیح یسوع کے بدن کے ذریعے شریعت کے اعتبار سے مار دئیےگئے ،ایسا اِس واسطے ہوا تاکہ وہ ہمیں کسی دوسرے سے جوڑ دے یعنی اُس سے جو مردوں میں سے جلایا گیا تھا تاکہ ہم خدا کے لئے پھل لائیں۔ 5 ۵۔ اِس لئے جب ہم جسمانی تھے تب ناپاک ارادے ہمارے اعضا میں شریعت کے ذریعے متحرک رہتے تھےتاکہ موت کا پھل پیدا کریں۔ 6 ۶۔ مگر اب ہم شریعت سے آزاد کر دئیے گئے ہیں جس کے ہم ماتحت تھے اُس کے اعتبار سے مر چکے ہیں۔ایسا اِس لئے ہوا تاکہ ہم روح کی تازگی سے خدمت کریں نہ کہ پرانے حرف (قانون کی) میں۔ 7 ۷۔ تو پھر ہم کیاکہیں؟ کیا شریعت اپنے آپ میں گناہ ہے؟ ہر گزایسا نہ ہو ، تاہم اگر شریعت نہ ہوتی تو میں گناہ سے کبھی واقف نہ ہوتا ۔ میں نے لالچ کو تب تک نہ جانا جب تک کہ شریعت نے نہ کہا، ’’ تم لالچ ہرگزنہ کرنا‘‘۔ 8 ۸۔ لیکن گناہ نے حکم کے ذریعے موقع پا کر ہر طرح کی شہوت کو مجھ میں جنم دیا، کیونکہ شریعت کے بغیر گناہ مردہ ہے۔ 9 ۹۔ ایک وقت تھا کہ میں شریعت کے بغیر زندہ تھا مگر جب حکم آیا تو گناہ نے دوبارہ جنم لیا اور میں مر گیا۔ 10 ۱۰۔ جس حکم کو میرے لئے زندگی بخش ہونا تھا وہ میرے لئے موت بن گیا۔ 11 ۱۱۔ مگر گناہ نے حکم کے ذریعہ سے موقع پا کر مجھے دھوکہ دیا ،شریعت کے ذریعے اُس نے مجھے مار ڈالا۔ 12 ۱۲۔ پس شریعت تو پاک ہے اور حکم بھی پاک،راست اور اچھا ہے۔ 13 ۱۳۔ تو کیاجو اچھا ہے وہ میرے لئے موت بن گیا؟ہر گز ایسا نہ ہو۔ بلکہ گناہ نے اچھی چیز کے ذریعے سے میرے لئے موت پیدا کرکے مجھے مار ڈالاکہ اُس کا گناہ ظاہر ہو جائے۔ایسا اِس واسطے ہوا تاکہ حکم کے ذریعے گناہ، گناہ میں حدسےزیادہ بڑھ جائے۔ 14 ۱۴۔ کیونکہ ہم جانتےہیں کہ شریعت تو روحانی ہے مگر میں جسمانی ہوں۔ میں گناہ کی غلامی میں بیچ دیا گیا ہوں۔ 15 ۱۵۔ کیونکہ جو میں کرتا ہوں میں اُسے حقیقتاَ سمجھتا نہیں۔ کیونکہ جو میں کرنا چاہتا ہوں وہ میں نہیں کرتا اورجس سے میں نفرت کرتا ہوں، وہ میں کرتا ہوں ( کر گزرتا ہوں)۔ 16 ۱۶۔ لیکن اگرمیں وہ کروں جسے میں کرنا نہیں چاہتا، تو میں شریعت سے رضا مند ہوں کہ شریعت اچھی ہے۔ 17 ۱۷۔ لیکن اب اُس کا کرنے والا میں نہ رہا بلکہ وہ گناہ ہے جو مجھ میں بستا ہے۔ 18 ۱۸۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مجھ میں یعنی میرےجسم میں کوئی بھی اچھائی نہیں بستی ۔ پس بھلائی کی خواہش تو مجھ میں موجود ہے مگر میں اُسے کر نہیں سکتا۔ 19 ۱۹۔ کیونکہ جو نیکی میں کرنا چاہتا ہوں وہ تو نہیں کرتا مگر جو گناہ میں نہیں کرنا چاہتا وہ میں کرگزرتاہوں۔ 20 ۲۰۔ سو اب اگر میں وہ کروں جو میں نہیں کرنا چاہتا تو پھر اُس کا کرنے والا میں نہیں بلکہ وہ گناہ ہے جو مجھ میں بسا ہوا ہے۔ 21 ۲۱۔ سو میں نے اپنے اندر کی شریعت کو جانا کہ میں جو کرنا چاہتا ہوں وہ بھلا ہے لیکن حقیقتاَبرائی میرے اندر موجود ہے۔ 22 ۲۲۔ میں اپنے باطن میں خدا کی شریعت میں خوشی مناتا ہوں۔ 23 ۲۳۔ مگر مجھے اپنے بدن کے اعضا میں ایک مختلف اُصول نظر آتا ہے۔ جو میری عقل کے نئے أصول سے لڑتا ہے۔ مجھے اُس گناہ کی شریعت کی قید میں ڈالتا ہے جو میرے جسم کے اعضا میں بسا ہے۔ 24 ۲۴۔ ہائے میں کیسابد بخت آدمی ہوں!کون مجھےاِس موت کے بدن سے رہائی بخشے گا؟ 25 ۲۵۔ مگر میں خدا کا ہمارے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے شکر کرتا ہوں! غرض میں اپنی عقل سے تو خدا کی شریعت کی خدمت کرتا ہوں تاہم اپنے جسم سے گناہ کی شریعت کی مزدوری کرتا ہوں۔