رومیوں باب ۲‎

1 ۱۔ اس واسطے اَے انسان !تُو جو دوسرے کو مجرم ٹھہراتا ہے، سمجھتا ہے کہ تو خود بریِ اُلالزام ہے مگر جس بات کے لئے تو دوسرے کو مجرم ٹھہراتا ہے خود بھی وہی کرتا ہے۔ 2 ۲۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ خدا کی عدالت سچ پر مبنی ہے اوراُن پرصادر آتی ہے جو ایسے کام کرتے ہیں۔ 3 ۳۔ مگر اَے شخص یہ سوچ کہ جس بات کے لئے تو دوسرے پر الزام لگاتا ہے خودبھی وہی کام کرتا ہے۔ کیا تو خدا کی عدالت سے بچ جائے گا؟ 4 ۴۔ اورکیا تو اُس کے صبر، سزا میں تاخیر اور اچھائی کی دولت کو انتہاہی حقیر جانتا ہے؟ کیا تو نہیں جانتا کہ اُس کی بھلائی تجھے توبہ کی طرف مائل کرنے کے لئے ہے؟ 5 ۵۔ مگر تو کس حد تک اپنی سختی اور غیر تائب دلی کے باعث غضب کے دن کے لئے جو خدا کی راست عدالت کے ظاہر ہونے کا دن ہے،اپنے لئے عذاب ذخیرہ کر رہا ہے۔ 6 ۶۔ وہ ہر شخص کو اُس کے کاموں کے موافق بدلہ دے گا: 7 ۷۔ اُن کو جو نیک کاموں میں مسلسل کوشش کرکے ستائش ,عزت اوربقا(پاکیزگی) کے طالب ہوتے ہیں وہ اُن کو ہمیشہ کی زندگی دے گا۔ 8 ۸۔ مگر وہ جو خود نمائی چاہتے ہیں ،حق کی نافرمانی کرتے، مگر ناراستی کے تابع ہیں اُن پر اُس کا غضب اور قہر ہو گا۔ 9 ۹۔ خدا ہر ایک انسانی جان پر جو ناراستی سے چلتے ہیں غضب اور تنگی لائےگا پہلے یہودی اور پھر یونانی پر۔ 10 ۱۰۔ مگر ہر ایک کو جو راستی سے چلتا ہے عزت، ستائش اور اطمینان ملے گا پہلے یہودی اور پھر یونانی کو۔ 11 ۱۱۔ کیونکہ خدا کسی کا طرف دار نہیں۔ 12 ۱۲۔ مگر جتنوں نے بنا شریعت پائےگناہ کیا، سزا بھی شریعت کے بغیر ہی پائیں گے اور جتنوں نے شریعت کے ماتحت گناہ کیا،اُن کی عدالت بھی شریعت کے موافق ہو گی۔ 13 ۱۳۔ کیونکہ خدا کے نزدیک شریعت کے سننے والے نہیں بلکہ شریعت پر عمل کرنے والے راست ٹھہرائے جائیں گے۔ 14 ۱۴۔ اِس لئے کہ جب غیر قومیں جن کے پاس شریعت نہیں اپنی فطرت سے شریعت کے کام کرتی ہیں تو شریعت نہ ہونے کے باوجود وہ اپنے لئے خود ایک شریعت ہیں۔ 15 ۱۵۔ ایسا کرنے سے وہ اِس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ جن اعمال کا تقاضا شریعت کرتی ہے وہ اُن کے دلوں پر تحریر ہیں۔ اور ان کا ضمیر بھی ان کے حق میں گواہی دیتا ہے ،اُن کے اپنے خیالات یا تو ان کا دفاع کرتے ہیں یا الزام لگاتے ہیں۔ 16 ۱۶۔ اور خدا کوبھی۔ یہ تب ہو گاجس روزخدا میری خوش خبری کےمطابق مسیح یسوع کے وسیلہ لوگوں کے بھیدوں کی عدالت کرے گا 17 ۱۷۔ لیکن اگر تو خود کو یہودی کہتااور شریعت پر انحصا رکرتا ہےاور خدا میں گھمنڈکرتاہے، 18 ۱۸۔اُس کی مرضی کو جانتااور اُن چیزوں کومنظور کرتا ہے جو عمدہ ہیں کیونکہ تونے شریعت سے تعلیم پائی؛ 19 ۱۹۔ اور اگر تو قائل ہو چکا ہے کہ توخود اندھوں کاراہبرہے ، تاریکی میں چلنے والوں کے لئے نور، 20 ۲۰۔ احمقوں کی تربیت کرنے والا، چھوٹے بچوں کا استاد، اور شریعت میں موجود علم اور سچائی کا نمونہ رکھنے والاہے، پھر ان تمام چیزوں کا اِس بات پر کیا اثر ہے کہ تو کس طرح کی زندگی گزارتا ہے؟ 21 ۲۱۔ تو جو دوسروں کو سکھاتا ہے کیاتو خود کو نہپں سکھاتا؟ تو جو چوری نہ کرنے کا پرچار کرتا ہے کیا تو چوری کرتا ہے؟ 22 ۲۲۔ تو جو کہتا ہے کہ زنانہ کرنا ، کیا تو زنا کرتا ہے؟ تو جوبتوں سے نفرت کرتا ہے، کیا تومندروں کو لوٹتا ہے؟ 23 ۲۳۔ تو جو فخریہ شریعت میں شاد مانی مناتا ہے ،کیاتو شریعت کی نافرمانی کے ذریعےخدا کی تذلیل کرتا ہے؟ 24 ۲۴۔ جیسے کہ لکھا گیا ہے،’’ خدا کانام تمہارے باعث غیر قوموں میں بےعزت ہوتا ہے‘‘۔ 25 ۲۵۔ پس ختنہ یقیناَتیرے لئے تب فائدہ مند ہے اگر تو شریعت کی تابع داری کرے لیکن اگر تو شریعت کا نا فرمان ہے تو تیری مختونی بھی نا مختونی بن جاتی ہے۔ 26 ۲۶۔ اگرپھر ایک نامختون شخص شریعت کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے توکیا اُس کی نامختونی ، مختونی نہ سمجھی جائے گی؟ 27 ۲۷۔ وہ شحص جو فطری نامختون ہے اگر شریعت کو پورا کرےتو تجھے قصوروار نہ ٹھہرائے گا؟ یہ اِس لئے ہے کیونکہ تم جو ختنہ اور نوشتوں کے رکھنے والے ہولیکن پھر بھی تم شریعت کی حکم عدولی کرتے ہو۔ 28 ۲۸۔ مگر یہودی وہ نہیں جو ظاہری ہے؛ نہ ہی ختنہ وہ ہے جومحض ظاہری اور جسمانی ہے ۔ 29 ۲۹۔ مگر یہودی وہ جو باطن سے ہو، اور ختنہ وہ جو دل اور روح کا ہو، نہ کہ ظاہری۔ ایسے شخص کی تعریف آدمیوں کی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہوتی ہے۔