لوقا باب ۱۳

1 ۱۔ اِس وقت کچھ لوگوں نے یسوع کو گلیلیوں کے بارے میں بتایا جن کے خون کو پَیلاطس نے اپنی کچھ اور قربانیوں کے ساتھ ملا دیا تھا۔ 2 ۲۔ یسوع نے اُ ن کو جواب میں پوچھا،کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ گلیلی دوسرے گلیلیوں سے زیادہ گناہ گارتھے کیونکہ انہوں نے اِس طرح مصبیت اٹھائی تھی؟۔ 3 ۳۔ نہیں میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اگر تم توبہ نہ کروگے تو تم سب اِسی طرح ہلاک ہو گے۔ 4 ۴۔ یا وہ اٹھارہ لوگ جو شیلوخ میں تھے اور جن پر برج گرا اور وہ ہلاک ہو گئے(مر گئے) ، کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ تم سے زیادہ گناہ گار تھے ان لوگوں کی نسبت جو یروشلیم میں تھے۔ 5 ۵۔ نہیں میں کہتا ہوں ’’ اگر تم توبہ نہ کروگے تو تم سب ہلاک ہو جاؤگے‘‘۔ 6 ۶۔یسوع مسیح نے یہ تمثیل بتائی کہ کسی شخص نے اپنے تاکستان میں اِنجیر کا ایک درخت لگایا وہ اُس کے پاس آیا لیکن اُس میں پھل نہ پایا۔ 7 ۷۔ اُس مالک نے باغبان سے کہا دیکھ تین سال میں اِس اِنجیر کے درخت کے پاس آتا رہا تاکہ پھل تلاش کروں لیکن کچھ نہ پایا۔اسے کاٹ ڈالو یہ زمین کو کیوں برباد کرے۔ 8 ۸۔باغ کے ملازم نے جواب دیا کہ ایک برس اسے اور رہنے دو۔میں اِس کے گرد تھالا کھودوںگا اور کھاد ڈالوں گا۔ 9 ۹۔ اگر اگلے سال اُس میں پھل لگا تو اچھی بات، لیکن اگر پھل نہ لگا تو اسے کاٹ ڈالنا۔ 10 ۱۰۔یسوع مسیح ہیکل میں سبت کے دن تعلیم دے رہے تھے۔ 11 ۱۱۔دیکھو وہاں ایک عورت تھی جسے اٹھارہ سال سے کمزوری کی بدروح نے گھیر رکھا تھا، وہ کبُڑی ہو گئی تھی اور مکمل طور پر سیدھی کھڑی نہ ہو سکتی تھی۔ 12 ۱۲۔جب یسوع نے اُسے دیکھاتو بلایا اور کہا،’’ اپنی کمزوری سے آزاد ہو جا‘‘۔ 13 ۱۳۔ یسوع نے اپنے ہاتھ اُس عورت پر رکھے اوریکدم وہ عورت سیدھی ہو گئی اور خدا کی تمجید کرنے لگی۔ 14 ۱۴۔لیکن عبادت خانہ کا سردار یسوع سے ناراض ہوا کیونکہ یسوع نے سبت کے دن اُس عورت کو شفادی تھی۔ عبادت خانے کے سردار نے بھیٹر سے کہا’’ چھ دن میں کام کرنا جائز ہے،پس انہی دنوں میں آؤ اور شفاپاؤ نہ کہ سبت کے دن‘‘۔ 15 ۱۵۔خداوند یسوع نے اُسے جواب دیا اور کہا اَے ریا کارو، کیا تم میں سے ہر ایک اپنے گدھے یا بیل کو اپنے باڑے سے پانی پلانے کے لئے سبت کے دن نہیں کھولتا؟ 16 ۱۶۔ پس ابرہام کی یہ بیٹی بھی جسے اِبلیس نے اٹھارہ سال سے جکڑ رکھا تھا ،کیا اسے سبت کے دن قید سے آزاد کرنا ضروری نہ تھا؟ 17 ۱۷۔ جیسے ہی اُس نے یہ باتیں کہیں وہ تمام جنہوں نے اُس کی مخالفت کی وہ شرمندہ ہوئے لیکن تمام ہجوم اُس کے شاندار کاموں سے شادمان ہوا جو اُس نے کیے تھے۔ 18 ۱۸۔تب یسوع نے پوچھا،خدا کی بادشاہی کس کی مانند ہے اور اِس بادشاہی کا موازنہ کس سے کیا جا سکتا ہے؟۔ 19 ۱۹۔ آسمان کی بادشاہی رائی کے دانے کی مانند ہے جسے ایک آدمی نے اپنے باغ میں بویا اور یہ بڑھ کر ایک بڑا درخت بن گیا ،ہوا کے پرندوں نے اُس کی شاخوں پر بسیرا کیا۔ 20 ۲۰۔ دوبارہ یسوع نے پوچھا، خدا کی بادشاہی کو میں کس کے برابر کہہ سکتا ہوں؟ ۔ 21 ۲۱۔آسمان کی بادشاہی اُس خمیر کی مانند ہے جسے ایک عورت نے لیا اور تین پیمانہ آٹے میں ملا دیا جس نے سارے آٹے کو خمیر کر دیا۔ 22 ۲۲۔یسوع نے یروشلیم کو جاتے ہوئے راستہ میں ہر قصبہ اور گاؤں میں جا کر تعلیم دی۔ 23 ۲۳۔ کسی نے یسوع سے پوچھا،اے خداوند کیا چند ہی لوگ بچائے جائیں گے؟پس یسوع نے انہیں جواب دیا۔ 24 ۲۴۔تنگ دروازہ سے داخل ہونے کی کوشش کرو کیونکہ بہت سے کوشش کریں گے لیکن اندر داخل نہ ہونے پائیں گے۔ 25 ۲۵۔جبکہ گھر کا مالک کھڑا ہو کر دروازے کو تالا لگا دیتا ہے تب تم باہر کھڑے رہوگے اور زور سے دروازہ کھٹکھٹاؤگے اور کہوگے ’’خداوند خداوند ہمیں اندر آنے دے‘‘ اور وہ جواب دے گا اور تمہیں کہے گا،’’میں تمہیں نہیں جانتا کہ تم کہاں سے ہو‘‘۔ 26 ۲۶۔ تب تم کہوگے،’’ ہم نے تیرے ساتھ کھایا اور پیااور تو نے ہماری گلیوں میں تعلیم بھی دی‘‘۔ 27 ۲۷۔لیکن وہ جواب میں کہے گا،میں تم سے کہتا ہوں، میں نہیں جانتا کہ تم کہاں کے ہو؟ اے بد کردارو، میرے سامنے سے دور ہو جاؤ۔ 28 ۲۸۔جب تم ابرہام،اضحاق، یعقوب اور تمام انبیاکو خدا کی بادشاہی میں دیکھو گے وہاں رونا اور دانتوں کا پیسنا ہو گا، لیکن تم باہر پھینک دئیے جاؤگے۔ 29 ۲۹۔وہ مشرق، مغرب ، شمال اور جنوب سے آئیں گے اور خدا کی بادشاہت کی ضیافت میں شامل ہوں گے۔ 30 ۳۰۔اور یہ جان لو کہ آخراوّل ہو جائیں گے اور اوّل آخر ہو جائیں گے۔ 31 ۳۱۔ تھوڑی دیر بعد کچھ فریسی آئے اور یسوع سے کہا،’’جاؤاُس جگہ سے چلے جاؤ کیونکہ ہیرودیس تمہیں قتل کرنا چاہتا ہے‘‘۔ 32 ۳۲۔یسوع نے کہا،’’جاؤ اور اُس لومڑی کو بتاؤ، دیکھو میں بدروحوں کو نکالتا ہوں اور آج اور کل شفا دیتاہوں اور تیسرے دن میں اپنے مقام کو پہنچوں گا۔ 33 ۳۳۔کسی بھی صورت میں میرے لئے یہ ضروری ہے کہ آج، کل اور آنے والے دنوں میں اپنا کام جاری رکھوں جبکہ یہ بات قبول کرنے کے قابل نہیں کہ ایک نبی کو یروشلیم سے دور قتل کیا جائے۔ 34 ۳۴۔ اَے یروشلیم،اَے یروشلیم تو جو نبیوں کو قتل کرتااور اُن پر پتھراؤ کرتا ہے جوتمہارے لئے بھیجے گئے۔کتنی بارمیں نے خواہش کی کہ تیرے بچوں کو یکجا کروں جس طرح مرغی اپنے چوزوں کو اپنے پروں تلے چھپاتی ہے لیکن تم نے یہ خواہش نہ کی۔ 35 ۳۵۔دیکھو تمہارا گھر ویران ہو گیا ہے میں تم سے کہتا ہوں کہ تم مجھے نہ دیکھو گے جب تک نہ کہو’’مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام سے آتا ہے‘‘۔